ترکی کی پارلیمان نے حکومت کو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کےخلاف شام اور عراق میں فوجی کارروائیوں کی اجازت دیدی ہے۔
جمعرات کو ترکی کی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی کی غرض سے غیر ملکی فوجی دستوں کو ترکی آنے اور ترک فوج کے اڈے استعمال کرنے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے۔
ترکی نے جنوبی شہر انسرلیک میں واقع اپنا ایک فوجی ہوائی اڈہ پہلے ہی سے اپنے 'نیٹو' اتحادی امریکہ کو دے رکھا ہے۔
گزشتہ ماہ ترکی کی سرحد سے متصل شام کے علاقوں میں شدت پسندوں کی پیش قدمی اور شام کے سرحدی قصبات پر حملوں کے باعث دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں بننے والے اتحاد میں شمولیت کے لیے ترکی پر اندرون اور بیرونِ ملک سے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔
شام کے سرحدی شہر کوبانی پر دولتِ اسلامیہ کے حملوں کےباعث
گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ایک لاکھ 60 ہزار شامی باشندے ترکی میں پناہ لے چکے ہیں جس سے سرحدی علاقوں میں صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ ترکی میں پہلے سے ہی 10 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزین مقیم ہیں جو اپنے ملک میں ساڑھے تین برسوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
جمعرات کو منظور کی جانے والی قرارداد کے تحت ترک حکومت کو اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی حملے کے خطرے کے پیشِ نظر شام اور عراق میں "کسی بھی دہشت گرد گروہ" کے خلاف کارروائی کرسکے۔
پارلیمان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیرِ دفاع عصمت یلماز نے کہا کہ شام میں شدت پسند گروہوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ترکی کی قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمان سے ترک حکومت کو سرحد پار حملوں کی اجازت دینے کا مقصد ترکی کی سرحدوں کے نزدیک ہونے والی جھڑپوں کے اثرات کو ہر ممکن حد تک کم کرنا ہے۔